Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

رات کا سیاہ اندھیرا ہر شے کو اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا۔ ہوائیں بگولوں کی صورت میں صحرا میں ریت کو اڑا رہی تھیں۔ غفران احمر بیڈ پر دراز کل آنے والے حسین لمحوں کے تصور میں گم تھا اس کے مہمانوں کو کل آنا تھا۔ دلربا کے چہرے پر بڑا دبا دبا جوش تھا وہ کچن میں موجود تنہا تھی تمام ملازماؤں کو وہ مختلف کاموں میں مصروف کر چکی تھی۔ اب اس کے سامنے کھانوں کی ڈشیں تھیں اس نے احتیاطاً ادھر ادھر دیکھ اور گریبان سے ایک درمیانی بوتل نکالی اور اس میں بھرا سبز رنگ کا سفوف ہر کھانے میں چھڑکا بوتل کو واپس گریبان میں منتقل کرکے جلدی جلدی چمچ سے سفوف کو کھانے میں ملا دیا۔

”ہاہا رانی صاحبہ کل تو عروسی جوڑا نہیں کفن پہنے گی کل تو سیج پر نہیں قبر میں سوئے گی میرے ہوتے ہوئے غفران احمر کسی کا نہیں ہو سکتا۔


“ کھانے میں زہر ملاتے ہوئے وہ دل ہی دل میں خوشی سے قہقہے لگا رہی تھی۔ اس تمام کارروائی کو ذاکرہ کھڑکی سے چھپ کر دیکھ رہی تھی اس کا شک بالکل بالکل سچ ثابت ہوا تھا دلربا جو چند دن قبل محل سے باہر گئی تھی۔

وہ یہ زہر ہی لینے گئی تھی وہ ایک عرصے سے ماہ رخ کو مارنے کے خواب دیکھ ریہ تھی۔
”ذاکرہ… ذاکرہ کہاں ہو کچن میں رانی صاحبہ کیلئے کھانا تیار ہو چکا ہے جلدی سے لے جاؤ۔“ ذاکرہ وہاں سے بھاگ کر اپنے کمرے میں آ گئی تھی۔
”کیا بات ہے بہت جلدی ہو رہی ہے آج تم کو رانی صاحبہ کو کھانے کھلانے کی؟“ وہ دلربا کو وہاں دیکھ کر مسکرا کر گویا ہوئی۔
”ارے… کوئی بات نہیں ہے ایسی تو وہ صبح ہی بیوٹیشن آ جائے گی۔ اس لئے رئیس کا حکم ہے رانی کو کھانا کھا کر جلدی سو جانا چاہئے۔“ وہ متغیر ہوتی رنگت چھپاتی دانت نکال کر بولی۔
”ٹھیک کہہ رہی ہو میں لے جاتی ہوں کھانا رانی صاحبہ کو کھلا کر ہی آؤں گی۔“ وہ کہتی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔ دلربا نے مسکراتے ہوئے اسے دور تک جاتے ہوئے دیکھا پھر مسکراتی گنگناتی اپنے کمرے کی طرف چلی گئی۔
ذاکرہ کھانا ٹرالی میں رکھ کر سیدھی ماہ رخ کے کمرے کی سمت آئی تھی۔ چند لمحے وہاں رک کر واپس اس پورشن کی طرف گئی تھی اور وہاں حسب توقع دلربا کو موجود نہ دیکھ کر ایک گہری مسکراہٹ اس کے لبوں پر آئی تھی۔ چند لمحوں بعد وہ ٹرالی لے کر غفران احمر کی طرف جا رہی تھی۔
”رئیس! کھانا تناول فرما لیجئے۔“ وہ کھانا ٹیبل پر لگا کر بولی۔
###
ہلکے سے شور کی آواز پر شہریار نے مڑ کر دیکھا تو اس کے مسکراتے لب کھلے کے کھلے رہ گئے تھے اپنی مما کو بے ترتیب انداز میں کارپٹ پر گرے دیکھ کر وہ بدحواسی سے ان کی طرف بڑھا تھا۔
بہت شدید تکلیف تھی ان کے چہرے پر اس نے ان کو اٹھا کر اپنے بیڈ پر لٹایا اور ایمبولینس کو فون کرکے اٹیچڈ باتھ روم کی طرف بھاگا۔
مسز عابدی سیکنڈ ہارٹ اٹیک کی زد میں تھیں تین دن موت و زیست کی اذیت میں مبتلا رہی تھیں۔ مسٹر عابدی اور فیاض ملک سے باہر ٹور پر تھے اور شیری نے ان کو اطلاع نہیں دی وہ دن رات ہسپتال میں ان کی تیمارداری کرتا رہا۔
ایک ہفتہ بعد مسز عابدی کی طبیعت بہتر ہونے میں لگا۔
”مما کیسا فیل کر رہی ہو ہیں آپ؟“ وہ گھر آنے کے بعد ان سے مخاطب ہوا تھا۔
”میں شام کو فیاض بھائی کے گھر جاؤں گی شیری۔“ وہ بند آنکھوں سے کمزور لہجے میں گویا ہوئی تھیں۔ وہ ان کے احساسات سے بے خبر بولا۔
”آف کورس مما بٹ پہلے آپ بہتر تو ہو جائیں پھر چلتے ہیں۔“
”بہتر ہوں میں ٹھیک ہے میری طبیعت مجھے آج ہی وہاں جانا ہے۔
”اوہ… پری کی یاد ستا رہی ہے آپ کو آئم شور۔“ وہ شوخ لہجے میں ان سے مخاطب ہوا تھا پری کے تصور میں ڈوبا ہوا۔
”پری سے نہیں… عادلہ سے آپ کی بات پکی کرنے جا رہی ہوں میں۔“ وہ آنکھیں کھول کر اس کو سرد انداز میں دیکھتی ہوئی بولیں۔
”عادلہ سے…؟ میں اس سے شادی نہیں کرنا چاہتا ممی!“ وہ ان کی طرف دیکھ کر قطعیت بھرے لہجے میں گویا ہوا اس کے چہرے پر الجھن و تذبذب پھیلا ہوا تھا وہ ان کی طرف دیکھ رہا تھا۔
”ممی! ابھی آپ ریسٹ کریں ڈیڈی بھی جلد آنے والے ہیں اور ان کے آنے سے پہلے آپ کو بالکل تندرست ہونا ہے ابھی تو مجھے ان سے غصہ و ڈانٹ کھانی پڑے گی آپ کی بیماری کا جو ان کو انفارم نہیں کیا۔“ اس نے باتوں کا رخ موڑنا چاہا تھا۔
”عابدی کی فکر مت کرو میں خود سمجھا لوں گی ان کو لیکن آپ یہ بات کان کھول کر سن لو میں شام میں عادلہ کیلئے آپ کا پرپوزل لے کر جاؤں گی اور یہ تو آپ بھی سمجھتے ہوں گے وہ انکار بھی نہیں کریں گے۔
“ ان کے لہجے میں گہرا طنز تھا۔
”میری طرف اس طرح مت دیکھو میں سب جان چکی ہوں۔“
###
عشرت جہاں اور مثنیٰ صفدر جمال کے ساتھ کل رات عمرے کی ادائیگی کے بعد واپس آ چکی تھیں۔ پری بھی ان سے ملنے کیلئے بے چین تھی ان کی ڈیڑھ ماہ کی جدائی کو اس نے شدت سے محسوس کیا تھا وہ ان کو ایئر پورٹ ریسیو کرنے جانا چاہتی تھی مگر دادی کی طبیعت کچھ بہتر نہ تھی وہ اپنی خواہش کو دل میں ہی دبا کر رہ گئی تھی۔
دادی کی طبیعت صبح خاصی سنبھلی تو انہوں نے اس سے کہا کہ وہ ان سے ملنے کیلئے جائے وہ اس کو یاد کر رہی ہوں گی۔
”میں نے رات ان سے فون پر بات کر لی تھی دادی جان! آپ کی طبیعت ٹھیک ہو جائے گی تو چند دنوں بعد چلی جاؤں گی۔“ اس نے ان کی چوٹی باندھتے ہوئے اپنائیت سے کہا۔
”ارے میری بیماری کی فکر مت کیا کرو بیٹی! بڑھاپا ہے میرا تم جانے کی تیاری کرو کچھ دن ٹھہر جانا اتنے دنوں بعد تمہاری ماں آئی ہے وہ بھی تم کو اپنے پاس رکھنا چاہتی ہو گی۔
“ وہ محبت سے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے گویا ہوئیں۔
”میں نے طغرل سے کہہ دیا ہے وہ راستے سے پھول اور مٹھائی لے لے گا ایسے موقع پر مٹھائی اور پھولوں کا لے جانا اچھا لگتا ہے۔“
”وہ تو آفس جا چکے یں۔“ اس کا دل عجیب انداز میں دھڑکا تھا۔
”وہ آئے گا ابھی صبح میں نے کہہ دیا تھاوہ کہہ رہا تھا میٹنگ کے بعد آ کر لے جائے گا تم کو وہ آنے ہی والا ہوگا تم تیار ہو جاؤ۔
”جی دادی جان! میں عائزہ کو کہہ دیتی ہوں وہ آپ کی میڈیسن کا خیال رکھے۔“ وہ اٹھتے ہوئے بولی۔
”ذرا صباحت کو یہاں بھیجتی جاؤ۔“ وہ لیٹتی ہوئی گویا ہوئیں۔
”جی اماں! آپ نے مجھے بلایا ہے؟“ کچھ لمحوں بعد صباحت وہاں آکر بولیں۔
”ہوں… اب تم بلانے سے ہی آتی ہو بہو! آخر ماجرا کیا ہے تم کیوں مجھ سے اتنا بھاگنے لگی ہو… میں کیا بہت ڈراؤنی ہو گئی ہوں؟“
”نہیں نہیں اماں جان! میں آپ سے کیوں بھاگوں گی اور نہ ہی آپ کو ایسا کچھ ہوا ہے۔
“ وہ نرمی سے کہتی ہوئیں ان کے قریب بیٹھ گئیں۔
”کوئی نہ کوئی تو ایسی بات ہے جو تم مجھ سے چھپا رہی ہو۔“
”ایسی کیا بات ہو سکتی ہے اماں جان! پھر میں بھلا آپ سے کیوں چھپاؤں گی آپ تو بڑی ہیں ہماری۔“ وہ پراعتماد لہجے میں محبت سے گویا ہوئیں۔
”تم نے مجھے بڑا سمجھا ہی کب ہے صباحت! تم نے ہمیشہ مجھ سے فاصلہ رکھا میرا تم سے کتنا قریبی تعلق ہے اور تم نے مجھے اتنا ہی غیر سمجھا ہمیشہ ہی تم مجھ سے کچھ نہ کچھ چھپاتی آئی ہو اب بھی مجھے ایسا ہی کچھ محسوس ہو رہا ہے۔
“ ان کے لہجے میں انجانے اندیشے لرز رہے تھے چند لمحے صباحت بھی گنگ سی رہ گئی تھیں مگر پھر وہی ان کی فطری بے حسی و تنفر عود کر آیا تھا۔
”آپ بھی نامعلوم کیا کیا تنہائی میں سوچ لیتی ہیں شاید آپ عادلہ کی وجہ سے مجھ سے خفا ہیں کہ میں نے اس کو زینی کے ساتھ کیوں مری بھیجا؟“
”میں کہتی ہوں جوان جہان لڑکی کو ایک ماہ سے اس کی خالہ کے گھر چھوڑنا کہاں کی عقل مندی ہے اور پھر اٹھا کر اسے مری بھی بھیج دیا۔
ادھر عائزہ مہینوں سے میکہ بسائے بیٹھی ہے اور تم ہو کے کوئی پروا ہی نہیں ہے۔“
”زینب تو زیادہ گھر میں تنہا ہوئی ہے سراج کو اپنے بزنس کے دوروں سے فرصت نہیں ہوتی اب وہ عادلہ اور دو ملازماؤں کو مری ساتھ لے کر گئی ہے۔ فاخر کو بھی ابھی اسلام آباد میں ایڈجسٹ ہونے میں وقت لگ رہا ہے وہ بہت جلد ہی عائزہ کو بھی لے جائے گا فکر نہ کریں آپ آصفہ آپا کی شرمن کی بات پکی ہوئی یا نہیں؟“
###
ہم نے ہر سانس محبت پر فدا کی ہے
ہر دعا میں تیری چاہت کی التجا کی ہے
تم کیا کرو گے محبت کی انتہا
ہم نے تو ابتداء ہی انتہا سے کی ہے
وہ اس کی طرف دیکھتے ہوئے گنگنایا تھا برابر میں بیٹھی پری سمٹ کررہ گئی۔
فیروزی کلر کے دوپٹے کے ہالے میں اس کے شفاف چہرے پر سرخی بہت نمایاں تھی طغرل کی پر حدت نگاہیں اسے پزل کر رہی تھیں۔
”پلیز سامنے دیکھ کر گاڑی چلائیں وگرنہ کوئی حادثہ ہو جائے گا۔“ وہ بار بار اس کو اپنی طرف دیکھتا پا کر آہستگی سے گویا ہوئی۔
”ہو جانے دو جانم! اب تم ساتھ ہو میرے کسی حادثے کا خوف نہیں ہے۔“ اس نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لینا چاہا تھا پری نے سرعت سے دور کر لیا۔
”ناٹ چیٹنگ…“ وہ اس کی طرف دیکھ کر بولا۔
”آپ بھی اپنی حد میں رہیں تو اچھا ہے۔“
”میں نے کیا کر دیا ہے ایسا صرف ہاتھ ہی تو پکڑا ہے۔“
”میں یہ سب پسند نہیں کرتی یہ معلوم ہونا چاہئے آپ کو۔“
”اس میں خفا ہونے والی کیا بات ہے یار! تم جو اس پورے ہفتے مجھ سے دور بھاگتی رہی ہو چھپتی رہی ہو… وہ کیا ہے؟“ اس کے لہجے میں شوخی و شرارت تھی وہ بہت سلو ڈرائیو کر رہا تھا۔
”میں ممی کو کسی قسم کا شبہ نہیں ہونے دینا چاہتی ،ویسے بھی ان دنوں ان کا موڈ کچھ زیادہ ہی آف ہے ،بات بے بات ان کو غصہ آنے لگا ہے اور آپ کو کسی کی بھی پروا نہیں ہے طغرل بھا…“
”شش…“ اس نے اس کی بات قطع کرکے تیز لہجے میں کہا۔
”میں تمہارا بھائی نہیں ہوں سمجھی تم… بے وقوف۔“ اس کا موڈ بری طرح آف ہو گیا تھا پری بے ساختہ ہنس دی۔
”اب ہنس کر میرا مزید دل جلانے کی ضرورت نہیں ہے رات کو لینے آؤں گا… ریڈی رہنا۔“ وہ ایک دم ہی سنجیدہ ہو گیا تھا۔
”میں رات کو نہیں آؤں گی ،مجھے وہاں رکنا ہے۔“
”میں نے مما کو کال کر دی ہے کہ میں تم سے شادی کر رہا ہوں۔“
”یہ… یہ کیا کیا آپ نے؟“ وہ بری طرح سراسیمہ ہو گئی۔
”اب تم کو میرا ساتھ دینا ہوگا۔“ وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا۔

   1
0 Comments